اسلام آباد (سہ پہر) طالبان رجیم دشمنی کی راہ پر گامزن
اسلام آباد (سہ پہر) افغانستان پاکستان کا قریب ترین ہمسایہ ملک ہے کہتے ہیں کہ دوست بدلے جاسکے ہیں مگر ہمسائے نہیں تاہم ہمارے مغربی ہمسائے کا رویہ اور اقدامات کچھ ایسے نوعیت کے رہے ہیں کہ انہیں گوارہ کرنا پاکستان تو کیا دنیا کے لئے کسی بھی ملک کے لئے ممکن نہیں ہوگا قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاک افغان تعلقات میں کئی موڑ آئے اب جبکہ افغانستان میں طالبان حکومت ایک بار پھر سے قائم ہے پاک افغان تعلقات نئے موڑ پر کھڑے معلوم ہوتے ہیں کسی بھی ملک کے لئے یہ نہایت کڑا وقت ہوتا ہے کہ اسے اپنے ہمسایہ ملک سے سلامتی کا خطرہ لاحق ہوجائے اور اگر فریق ثانی معاملات کو سدھارنے کے بجائے مزید بگاڑنے پر تلا ہو تو معاملہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے پاک افغان تعلقات میں در آنے والی کڑوا ہٹ کے اسباب وعوامل کا ایک تو سیدھا سادا سا جواب یہ ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت پورے ملک پر اپنی رٹ قائم نہیں کرسکی بظاہر افغان طالبان کا پورے ملک پر کنٹرول نظر آتا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت ملک میں موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف کوئی فیصلہ کن آپریشن کرنے میں تاحال ناکام نظر آتی ہے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں شدید متاثر ہونے کے باوجود امن’ مصالحت’ تعمیر نو اور اقتصادی ترقی کے تمام اقدامات کی حمایت جاری رکھتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی اس کے باوجود افغان حکومت پر کالعدم ٹی ٹی پی کی سوچ غالب آچکی ہے پاک افغان سرحد پر کشیدگی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ آخر افغان سرحد پاکستان کے لئے محفوظ کیوں نہیں؟ کیا افغان طالبان اپنی خدمات ہر اس ریاست یا گروہ کے لئے پیش کریں گے جو انہیں مالی معاونت فراہم کریں بظاہر افغان عبوری حکومت کے جانب سے اپنائے گئے طرز عمل سے اس مفروضے کو خاصی تقویت مل رہی ہے افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوجانے کے بعد پاکستان میں ایک مخصوص لابی عوام کو یہ تاثر دے رہی تھی کہ اب افغانستان میں امن قائم ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی صورت حال بہتر ہوجائے گی ایسا ممکن نہیں ہوسکا پاکستان کے لئے پہلے سے بھی زیادہ مشکلات پیدا ہورہی ہیں دہشت گردی سرحد پار شدت پسندوں کی دراندازی دہشت گردی میں ملوث عناصر کے لئے تربیتی وتنظیمی سہولتیں سمگلنگ اور ملک دشمن عناصر کی جانب جھکاؤ پاکستان کے لئے بجا طور پر تشویش کا باعث بنا ہوا ہے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث انتہاء پسند عناصر کے تار افغانستان سے ہی ہلائے جاتے ہیں یہ پاکستان کا تحمل ہے کہ افغانستان کی جانب سے درپیش سیکورٹی خطرات کے باوجود وہ کشیدگی بڑھانے کے بجائے افہام وتفہیم سے مسئلے کے حل کا خواہاں ہے اگر افغانستان دوحہ معاہدے پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل درآمد کرتا تو آج یہ نوبت نہ آتی اقوامِ متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان حکومت کے زیرِ اقتدار افغانستان ایک بار پھر عالمی دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے جو پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے خلاف سرگرم ہیں طالبان نے دوحہ امن معاہدے کے تحت یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین دہشت گردی اور سرحد پار حملوں کے لیے استعمال نہیں ہوگی تاہم حالیہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وعدہ پورا نہیں ہوا اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ القاعدہ اور طالبان کے روابط بدستور قائم ہیں بلکہ یہ تعلقات پہلے سے زیادہ فعال ہو چکے ہیں رپورٹ میں ایمن الظواہری کی کابل میں ہلاکت کو اس بات کا ثبوت قرار دیا گیا کہ القاعدہ کے نیٹ ورک اب بھی افغانستان میں موجود ہیں رپورٹ کے مطابق دہشتگرد تنظیمیں زابل، وردک، قندھار، پکتیا اور ہلمند کے راستوں سے بلوچستان میں داخل ہوتی ہیں طالبان حکومت کی سرپرستی میں فتنہ الخوارج کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئی ہیں، جبکہ اس کے سربراہ نور ولی محسود کو ہر ماہ 50 ہزار 500 امریکی ڈالر فراہم کیے جاتے ہیں مزید کہا گیا کہ محسود کے قبضے میں امریکی افواج کے چھوڑے گئے جدید ہتھیار بھی موجود ہیں رپورٹ کے مطابق جعفر ایکسپریس دھماکے اور ثوب کینٹونمنٹ حملوں میں افغانستان سے منسلک ناقابلِ تردید شواہد سامنے آئے ہیں استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگا بیانات مہمات اور آن لائن پراپیگنڈے میں تیزی رہی جس نے ماحول کو مزید پیچیدہ بنا یا افغان طالبان اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنے اور افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے سے روکنے کی بجائے پاکستان پر امریکی مفادات کے لئے کام کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں پاکستان موجودہ حالات میں ٹی ٹی پی کو افغان طالبان ہی کا تسلسل سمجھتا ہے اور اس حوالے سے مذاکرات میں ٹھوس شواہد بھی سامنے رکھے گئے ہیں مگر طالبان یہ ماننے پر آمادہ نہیں کہ ان کی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال ہورہی ہے اور نہ ہی وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی کوئی تحریری ضمانت دینے کو تیار ہیں پاکستان سرحد پار دہشت گردی کے معاملے پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر قائم ہے اور افغان طالبان سے تین ممکنہ آپشنز میں سے کسی ایک پر عمل کا مطالبہ کر رہا ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی دہائیوں پر مشتمل تناؤ کا دونوں مسلم ممالک کے امن اور معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے خدانخواستہ یہ تنائو بر قرار رہا اور اغیار اپنی سازشوں میں کامیاب ہوگیا تو مستقبل میں یہ تناؤ مزید خرابیوں کا باعث بن سکتا ہے پاکستان نے ہمیشہ افغانوں کیلئے اقبال کی سوچ و فکر کی تائید کی افغان قوم کے جن اوصاف کو مدنظر رکھ کر پاکستان ہمیشہ پیار اور ہمدردی کا رشتہ نبھاتا آیا ہے اسی ہمدردی کی آج پاکستان کو افغانستان سے بھی توقع ہے افعانستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اسے اپنے عوام کی ترقی خوشحالی اور دفاع کے لئے جو کچھ درکار ہے یہ تعاون اسے پاکستان کے علاوہ کہیں اور سے نہیں مل سکتا افغانستان کا قدرتی اتحاد بھارت سے نہیں پاکستان کے ساتھ بنتا ہے یہ افغان قیادت کی فراست کا امتحان ہے کہ وہ بر وقت اور درست فیصلوں کے ذریعے ترقی خوش حالی اور خود مختاری کی منزل کو خود سے قریب کرتی ہے یا اس موقع کو گنوا بیٹھتی ہے**