LOADING

Type to search

پاکستان تازہ ترین

اسلام آباد(سہ پہر) سیرا اور پِیاس انٹرنیشنل کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں منشیات فروش مافیا کے خلاف بڑی قانونی کارروائی

(اسلام آباد: منشیات کے بڑھتے ہوئے ناسور کے خلاف ایک غیر معمولی اور اہم اقدام کے طور پر، سماجی فلاحی ادارہ پِیاس انٹرنیشنل نے کرائم اینڈ انویسٹی گیٹو رپورٹرز ایسوسی ایشن (سیرا
کے ساتھ مل کر اسلام آباد ہائیکورٹ  سے رجوع کیا ہے تاکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شیشہ کیفے کے پردے میں مبینہ طور پر کام کرنے والے منشیات فروش گروہوں کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔

یہ قانونی پٹیشن نہ صرف پاکستانی آئینی و اخلاقی اقدار کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر مبنی کاروبار کے خلاف ہے، بلکہ ان عناصر کے خلاف بھی ایک موثر قدم ہے جو نوجوان نسل کو منشیات جیسے خطرناک زہر کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ شیشہ کیفے اصل میں آئس (کرسٹل میتھ)، چرس، گانجا اور کوکین جیسی خطرناک منشیات کے پھیلاؤ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

پٹیشن سپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس کیس نمبر 11/2006 کی روشنی میں دائر کی گئی ہے، جس میں 19 اکتوبر 2016 کو دیے گئے فیصلے کے تحت شیشہ کیفوں کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کی گئی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے واضح طور پر ریاستی اداروں کو ہدایت کی تھی کہ عوامی و نجی مقامات پر منشیات کے استعمال کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ تاہم پِیاس انٹرنیشنل اور سیرا
کے حالیہ مشترکہ سروے کے مطابق، اسلام آباد میں درجنوں شیشہ کیفے اب بھی آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں، جو حکومتی اداروں کی مجرمانہ خاموشی اور غفلت کا ثبوت ہیں۔

پِیاس انٹرنیشنل اورسیرا   کے چیئرمین رانا عمران لطیف، جو ایک سینئر صحافی اور سماجی مصلح بھی ہیں، نے اس نمائندے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شدید تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ شیشہ کیفے اب صرف فلیورڈ تمباکو کی حد تک محدود نہیں رہے، بلکہ ان میں منشیات کا کاروبار کھلم کھلا جاری ہے۔ یہ مافیا آئین اور قانون سے بالاتر ہو چکی ہے۔”

رانا عمران لطیف کا کہنا تھا کہ آئی سی ٹی انتظامیہ کو بارہا اس سنگین مسئلے کی نشاندہی کی گئی، لیکن ہر بار خاموشی اور غفلت کا سامنا رہا۔ “اب ہمارے پاس عدالت سے رجوع کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ یہ مسئلہ صرف اسلام آباد کا نہیں، بلکہ پوری قوم کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے، جس کے عالمی مضمرات بھی ہو سکتے ہیں۔”

رانا عمران نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم  کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مختلف ممالک میں شیشہ کیفے غیر قانونی منشیات کی ترسیل اور استعمال کے مراکز کے طور پر شناخت ہو چکے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ریاستی اداروں نے فوری ایکشن نہ لیا، تو پاکستان کا کردار عالمی انسداد منشیات کوششوں میں مشکوک ہو جائے گا۔

رانا عمران لطیف نے بتایا کہ ملک کی مختلف سول سوسائٹی تنظیموں، قانونی ماہرین، اور عوامی صحت کے اداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے، جس کے تحت قانونی، سماجی اور ابلاغی سطح پر جامع کارروائی کی جائے گی۔

“یہ صرف ایک پٹیشن نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے۔ ہم پارلیمان سے لے کر عالمی اداروں تک ہر دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ ہم ہر خطرہ مول لینے کو تیار ہیں، لیکن نوجوان نسل کا مستقبل شیشہ کیفوں کے پردے میں چھپے منشیات فروشوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔”

اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس پٹیشن پر آئندہ چند روز میں سماعت متوقع ہے۔ ادھر، پِیاس انٹرنیشنل اور سیرا نے وفاقی دارالحکومت میں منشیات سے منسلک شیشہ کلچر کے حقائق بے نقاب کرنے کے لیے ایک عوامی آگاہی مہم اور ڈاکومنٹری سیریز کے آغاز کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

یہ قانونی اقدام پاکستان میں انسداد منشیات کی مہم میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے، بشرطیکہ عدالتیں اور ریاستی ادارے اسے سنجیدگی سے لیں اور عملی اقدامات کریں۔